*کرم اور پاراچنار کا سیاسی و سماجی جغرافیہ*
⭕کرم کا علاقہ، جس کا مرکز پاراچنار ہے، پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ علاقہ اپنے خوشگوار موسم اور سرسبز زمین کی وجہ سے ماضی میں حکمرانوں کی گرمیوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
⭕کرم جغرافیائی اور آبادیاتی طور پر دو حصوں، بالائی(اپر) اور زیریں(لوئر)، میں تقسیم ہے۔ اس کی کل آبادی تقریباً دس لاکھ ہے۔
✅سماجی طور پر، کرم کے زیریں علاقے کے لوگ زیادہ تر سنی ہیں، جبکہ بالائی علاقے کے لوگ زیادہ تر شیعہ ہیں۔ مجموعی طور پر، شیعہ آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ ہیں۔
🔸پاراچنار، جو اس علاقے کا مرکز ہے، بنیادی طور پر شیعہ اکثریتی شہر ہے، جہاں تقریباً 2 لاکھ افراد آباد ہیں۔
👥قومیتی اعتبار سے، زیادہ تر لوگ پشتون ہیں جبکہ ہزارہ قوم کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔
◀️افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے اور علاقے میں شیعہ اکثریت رکھنے کی وجہ سے، پاراچنار کی جغرافیائی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی عوامل اکثر یہاں تنازعات اور جھڑپوں کا سبب بنتے ہیں۔
💢تاریخی اور سیاسی لحاظ سے، اس علاقے نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ جغرافیائی اور موسمی خصوصیات کی وجہ سے، یہ علاقہ ماضی میں بادشاہوں، خاص طور پر مغل شہنشاہوں (ہندوستانی مغل سلطنت) کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور ایک خوشحال علاقے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کے بعد یہ طویل عرصے تک افغان حکمرانوں اور برطانوی حکومت کے درمیان تنازع کا باعث بنا رہا اور بالآخر 1892 میں باضابطہ طور پر برطانوی ہندوستان کے زیر قبضہ آگیا۔
💢تاہم، اس علاقے کے عوام اور حکمران، اور دیگر قبائلی علاقے جو افغانستان اور برطانوی ہندوستان کی سرحد کے ساتھ واقع تھے، ایک قسم کی خودمختاری اور سیاسی آزادی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ خودمختاری ہندوستان کی آزادی اور اس کے نتیجے میں برصغیر کی تقسیم کے بعد بھی قائم رہی۔
⭕وزیراعظم عمران خان کے دور میں حکومت پاکستان نے اس خودمختاری کو ختم کیا اور ان علاقوں کو خیبرپختونخوا کے صوبے میں ضم کر دیا۔ (2019)
🔸یہ اس وقت ہوا جب کابل کے حکمرانوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو باضابطہ سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
🔺اس کے علاوہ، دونوں اطراف کی قبائلی وابستگیاں ہمیشہ سے قبائلی علاقوں، خاص طور پر کرم ایجنسی اور پاراچنار کے سیاسی اور سماجی مسائل پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔
✍️ *وادی کرم میں اختلافات اور تنازعات کی تاریخ*
⭕یہ کہنا مشکل ہے کہ اس علاقے میں تنازعات کب شروع ہوئے، تاہم فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ سے یہاں جھڑپوں کا امکان ہمیشہ موجود رہا ہے۔
🔸افغانستان پر سوویت قبضے اور ضیاءالحق کی پالیسیوں کے دوران، کرم ایجنسی میں مذہبی شدت پسند گروہوں کو فروغ ملا، جس کے نتیجے میں شیعہ مخالف کارروائیوں کا آغاز ہوا۔
◀️یہی عوامل اس خطے میں قتل عام اور جھڑپوں کی بنیاد بنے، جن کی ابتدا 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں ہوئی۔
✍️ * کرم ایجنسی میں اختلافات اور تنازعوں کی تاریخ*
⛔ حالیہ دور کے تنازعات اور کشیدگیوں کی ابتداء افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے اور طالبان و القاعدہ کے بہت سے ارکان کے پاکستان میں پناہ لینے سے جڑی ہے۔ کرم ایجنسی، پاراچنار اور اس کے آس پاس کے علاقے ان گروہوں کے لیے چھپنے اور اپنی قوت کو دوبارہ منظم کرنے کا مرکز بن گئے۔ اس کے بعد علاقے میں عدم تحفظ اور کشیدگی نے سنگین شکل اختیار کر لی۔
🔽ایسے لگتا ہے کہ افغان طالبان، ان کے حامی اور ہم خیال گروہ (جن میں القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، اور دیگر تکفیری تنظیمیں جیسے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی شامل ہیں) ابتدا میں لوئر کرم میں مقیم ہوئے۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ کرم علیا کے شیعہ اکثریتی علاقوں کی طرف مبذول ہوئی۔
⬅️یہ صورتحال علاقے کے شیعہ مکینوں میں یہ احساس پیدا کرنے کا سبب بنی کہ یہ گروہ علاقے کے فرقہ وارانہ توازن کو تبدیل کرنے اور شیعہ برادری کو ان کے علاقوں سے بےدخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
✅یہی سبب تھا کہ سال 2002 میں کرم ایجنسی کے شیعہ عوام نے القاعدہ اور طالبان کو علاقے سے نکالنے میں پاکستانی سرکاری فورسز اور نیٹو افواج کی مدد کی۔
❌تاہم، افغان اور پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کی دوبارہ قوت حاصل کرنے سے شیعہ اکثریتی علاقوں کی صورتحال تیزی سے خراب ہونے لگی۔
🗓️ 2007 سے 2012 کے درمیان، علاقے کو سب سے زیادہ دہشت گرد حملوں، ہزاروں شیعہ افراد کی شہادت اور زخمی ہونے کے سانحات کا سامنا کرنا پڑا۔
⭕اسی دوران، ان علاقوں کا مکمل محاصرہ بھی کیا گیا اور مسلح گروہوں نے اس دوران مسلسل حملے جاری رکھے۔
✍️ *وادی کرم اور پاراچنار میں جاری کشیدگی کی تین بنیادی وجوہات*
1️⃣ *پاراچنار کے تنازعات میں تکفیری گروہوں کا کردار:*
⛔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، کرم ایجنسی میں جھڑپوں کی شدت گزشتہ تین دہائیوں میں طالبان اور القاعدہ کے بچ جانے والے عناصر کے علاقے میں داخلے اور ان کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں سکونت اختیار کرنے کے ساتھ بڑھ گئی۔
⛔ان گروہوں کی شیعوں کے حوالے سے شدت پسند اور تکفیری نظریات ایک طرف، اور طالبان حکومت کے ابتدائی خاتمے کے بعد شیعہ برادری کا پاکستان کی سرکاری افواج اور نیٹو کے ساتھ مل کر ان عناصر کو علاقے سے نکالنے کا تعاون دوسری طرف، یقیناً ان کے شیعوں کے ساتھ پرتشدد رویے کے پیچھے ایک اہم عنصر رہا ہے۔
🔸اس کے علاوہ، علاقے کی اسٹریٹجک پوزیشن، جو افغانستان کے ساتھ بہترین رابطے کا ذریعہ ہے، نے بھی ان گروہوں کو کرم ایجنسی کی طرف متوجہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
⭕یہ تمام عوامل افغانستان میں جمہوری حکومت کے کمزور ہونے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ مزید شدت اختیار کر گئے، جس کے نتیجے میں اس علاقے کے شیعہ گزشتہ دو دہائیوں میں زیادہ سے زیادہ دباؤ کا شکار ہوئی۔
👈ایک اور اہم پہلو جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑنے اور دفاع از حرم میں پاراچنار کے لوگوں کی نمایاں شرکت کا ہونا ہے۔
پاکستان میں داعش خراسان کی سرگرمیوں کے فروغ اور لشکر جهنگوی اور سپاه صحابه جیسے دیگر شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں نے حالیہ بدامنی کو مزید بڑھایا ہے۔
2️⃣ *زمین کے تنازعات اور پاراچنار*
💢فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر، علاقے میں تنازعات اور جھڑپوں کا ایک بڑا حصہ زمین کی ملکیت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی بنیاد پر، بعض شخصیات جیسے کہ پاراچنار کے قومی اسمبلی کے رکن "حمید حسین" کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ جھڑپوں اور تنازعات کی بنیادی جڑ ہے، جبکہ فرقہ وارانہ اور مذہبی مسائل درحقیقت اسی مسئلے کے ضمنی اثرات ہیں۔
🗓️ اگست 2024ء میں شیعہ اور بعض سنی گروہوں کے درمیان ہونے والی خونی جھڑپیں اسی صورتحال کی ایک مثال کے طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ *مقامی ذرائع کے مطابق، ان جھڑپوں کی بنیاد ایک بڑی زرعی زمین کے تنازعے پر تھی جس پر ایک شیعہ اور ایک سنی قبیلہ ملکیت کا دعویٰ کر رہے تھے۔*
🔸اگرچہ اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے گزشتہ سال ایک بڑا جرگہ منعقد ہوا تھا جس نے شیعہ فریق کے حق میں فیصلہ دیا، لیکن بعض قوم پرست اور مذہبی عناصر کی جانب سے اس فیصلے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ نتیجتاً، یہ مسئلہ فرقہ وارانہ اور نسلی کشیدگی میں بدل گیا، جس کے نتیجے میں شیعہ اور سنی گروہوں کے درمیان شدید مسلح تصادم دیکھنے میں آیا۔
*اہم بات یہ ہے کہ اس نوعیت کے کئی دیگر زمینی تنازعات بھی اس علاقے میں موجود ہیں، جن میں سے بعض کی تاریخ کئی دہائیوں بلکہ پاکستان کی آزادی (1947) سے پہلے کے دور تک جا پہنچتی ہے۔*
🤔تاہم، ان زمینی تنازعات کی حقیقت اور موجودگی کے بارے میں بھی شک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان جھڑپوں کی وجہ اراضی کی دستاویزات کی عدم موجودگی اور غیر واضح سرحدی حد بندی ہے، لیکن پاراچنار کے قومی اسمبلی کے رکن حمید حسین کا اس حوالے سے ایک مختلف نظریہ ہے:👇
*"ان زمینی تنازعات کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ سرحدی علاقوں میں صرف کرم ایجنسی ہی ایسا مقام ہے جہاں زمینوں کی ملکیت کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں، اور یہاں شیعہ اور سنی دونوں آباد ہیں۔ اگر حکومت یا سیکیورٹی ادارے چاہیں تو وہ ایک دن میں اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں کیونکہ تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں۔"*
👈اسی بنیاد پر، کرم اور پاراچنار کے شیعہ اکثر موجودہ تنازعات کو مصنوعی اور ان کے آبائی علاقوں سے جبری بے دخلی کے لیے ایک حربہ سمجھتے ہیں۔
⬅️ ان تمام حملوں کے پیچھے اصل مقصد پاراچنار کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنا ہے، کیونکہ موجودہ صورتحال میں شیعہ سیاسی اور سماجی طور پر ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
3️⃣ *علاقے میں سیاسی عوامل کا کردار اور کشیدگی میں ان کا اثر:*
اگرچہ عمومی توجہ فرقہ وارانہ اور مذہبی محرکات کے ساتھ ساتھ زمینی تنازعات پر مرکوز ہے، لیکن ایک تیسرا عامل، یعنی سیاسی مقاصد، بھی ان تنازعات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
👤پاراچنار کے قومی اسمبلی کے رکن "حمید حسین" بھی ان شخصیات میں شامل ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علاقے میں زمین کے تنازعات اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے میں بعض سیاسی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ ان کے مطابق:
*"اکثر کہا جاتا ہے کہ پاراچنار میں مسئلہ شیعہ اور سنی کا ہے، جبکہ ہم سالوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور ہمارے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے... لہٰذا میں کہہ سکتا ہوں کہ ان جرائم کے پیچھے ایک اور طاقت موجود ہے جس کے مقاصد واضح ہیں، لیکن ہم ابھی تک اس سے بے خبر ہیں... ایک ایسی طاقت ہے جو چاہتی ہے کہ پاراچنار میں جھگڑے اور تنازعات برقرار رہیں؛ وہ اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے۔"*
👤عطالله، علاقے کے امن کمیٹی کے سربراہ، بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
*"حکومت کی ناکامی اور جرگے کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونا اصل مسئلہ ہے۔ معاہدے ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا، حالانکہ ان کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت ان معاہدوں کو نافذ کرتی۔
گزشتہ سال منعقد ہونے والے بڑے جرگے کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔"*