کوئی بھی معاشرہ یہ نہیں چاہتا کہ ان کے بچے ہتھیار اٹھائیں
الحمدللہ پاراچنار جیسا تعلیم یافتہ اور مہذب معاشرہ تو کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ان کے بچوں کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ بندوق ہو۔
آخر کیوں پاراچنار کے لوگ اسلحہ جمع کرنےکے خلاف ہیں؟
ہمارے (پارہ چنار)تین طرف سے افغانستان ہے جہاں سے مسلسل طالبان ہم پر حملے کرتے ہیں جس کی تصدیق خود وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی ہےتو دوسری طرف ہمارے اپنے ملک کے خوارج اور ٹی ٹی پی(تحریک طالبان پاکستان)ہیں جو ہمارے مسافروں پر آئےروز حملے کرتے ہیں ۔
21 نومبر 2024 کو کانوائے پر حملہ کیا گیا جس میں تقریبا 50 جانیں ضائع ہوئی۔
ان میں بچے ،بزرگ، جوان حتیٰ کہ عورتیں بھی شامل تھیں۔
شہید وسیم اور شہید اسحاق کی شہادت
اسی طرح دو دن قبل ہونے والے واقع کا تو سب کو پتہ ہے۔ جس میں دو مسافر شہید وسیم اور شہید اسحاق حسن جن کا تعلق پاراچنار سے تھا۔ وہ ٹل سے پاراچنار آرہےتھےکہ راستے میں لوئر کرم اوچت کے مقام پر سنی تکفیریوں نے ان کو بے دردی سے شہید کیا اور ان کے سروں کو تن سے جدا کیا۔
ایسے پچاسوں واقعات ہیں جیسا کہ تری منگل کے سات اساتذہ کا واقعہ وغیرہ۔
ایسے واقعات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ہماری حفاظت میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ہمیں حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں۔ ہمیں اپنی حفاظت خود کرنی پڑتی ہیں۔
جیسا کہ انگریزوں کے زمانے سے کرتے آرہے ہیں۔
اب خیبر پختون خواہ کی حکومت ایپکس کمیٹی میں فیصلہ کرتی ہے کہ کرم میں اسلحہ حکومت کے حوالے کر یں۔
یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہم ہتھیار حکومت کے حوالے کر یں۔
حکومت کو تو چاہیے تھا کہ ان بے لگام دہشتگردوں پر ہاتھ ڈالتی ان کو کڑی سزا دیتی جبکہ حکومت جہاں پر پاک فوج مکمل تورپر ناکام نظر آئی ان حالات میں حکومت ان سے وہ اسلحہ بھی لینا چاہتی ہے جو وہ اپنے دفاع کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کیا حکومت ہمیں طالبان اور تکفیریوں کے آگے نہتہ کرنا چاہتی ہے؟حکومت ہمیں بلکل بے یارو مددگار کرنا چاہتی ہے ۔