ملتِ جعفریہ کے مقاومتی راہنماؤں کی شہادت
حادثہ/سازش
تاریخ گواہ ہے کہ مکتب تشیع کے مقاومتی راہنماؤں اور جوانوں کو ٹریفک حادثے کا رنگ دے کر بھی شہید کیا جاتا رہا ہے۔ یہ ایک گہری سازش ہے جس کے ذریعے ملت کے جرأت مند اور بیدار فکر علماء، ذاکرین اور قائدین کو راستے سے ہٹایا گیا۔
چند اہم واقعات:
1️⃣ 22 جنوری 1998 کو معروف عالم دین علامہ سید عرفان حیدر عابدی اور ان کی اہلیہ سیدہ سعیدہ خاتون ایک مبینہ ٹریفک حادثے میں شہید ہو گئے۔ وہ خیرپور سے کراچی آ رہے تھے جب ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ پہلے انہیں عباسی شہید اسپتال لے جایا گیا، جہاں سیدہ سعیدہ خاتون انتقال کر گئیں، جبکہ علامہ عرفان حیدر عابدی نے آغا خان اسپتال میں جامِ شہادت نوش کیا۔ چونکہ وہ ایک نہایت نڈر اور انقلابی مقرر تھے، اس لیے انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔
2️⃣ علامہ سید سفیر سجاد شیرازی نجفی جو نجف اشرف کے جید استاد تھے، اپنے گن مین اور ڈرائیور کے ساتھ ایک پراسرار حادثے میں شہید کر دیے گئے۔
3️⃣ علامہ شہنشاہ حسین نقوی پر بھی اندرونِ سندھ، خیرپور جاتے ہوئے اسی مقام پر ایک پراسرار حادثہ ہوا، جس میں ان کی گاڑی تباہ ہو گئی اور وہ کئی ماہ زیرِ علاج رہے۔
4️⃣ معروف نوحہ خواں عرفان حیدر اور ان کے فرزند بھی کراچی سے خیرپور جاتے ہوئے اسی مقام پر حادثے کا شکار ہوئے۔ الحمدللہ عرفان حیدر محفوظ رہے، لیکن ان کے فرزند کو شدید چوٹیں آئیں۔
5️⃣ پاکستان کے عظیم مقاومتی عالم دین شہید حسن ترابی پر دو مرتبہ بم دھماکے سے حملہ کیا گیا۔ آخرکار وہ ایک خودکش دھماکے میں شہید ہو گئے۔
6️⃣ آج صبح ان کے فرزند، مقاومتی کمانڈر زین ترابی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیرپور سے کراچی آتے ہوئے اسی مقام پر شہید کر دیے گئے۔ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جو ملتِ جعفریہ کے راہنماؤں کے خلاف کی جا رہی ہے۔
ملت جعفریہ کا مؤقف:
ملت جعفریہ پاکستان اپنے شہداء کے قاتلوں کو پہچانتی ہے اور ان قتلوں کے ماسٹر مائنڈز سے بھی واقف ہے۔ حکومتِ پاکستان اور ملتِ تشیع کی تنظیموں کو چاہیے کہ ان واقعات کی فوری اور غیر جانبدار تحقیقات کریں اور اس گھناؤنی سازش کے جڑوں تک پہنچیں۔ آخر کب تک ہم اپنے قیمتی افراد کو یوں کھوتے رہیں گے؟
یہ محض حادثات نہیں، بلکہ ملت کے بہادر بیٹوں کو راستے سے ہٹانے کی ایک منظم کوشش ہے۔