کیا شیعہ مذہب میں ہر بندہ مفتی بن سکتا ہے
![]() |
شیعہ مذہب میں مفتی بننے کی اہلیت اور اجتہاد کی اہمیت پر مبنی تصویر |
"اختلافی مسائل کا حل کیسے نکالا جاتا ہے؟
مجتہد کیسے مسائل کو تلاش کرتے ہیں
بعض مومنین تقلید کی مخالفت کرتے ہیں ان کی مخالفت بےجا ہے کیونکہ ہم دلائل بھی دے چکے ہیں اور انسان محتاج ہے تقلید کا محتاج ہے اس لیے ہے کہ ہم ڈائریکٹ اہل بیت علیہم السلام سے مسائل شریعہ اخذ نہیں کر سکتے یہ ہم تمام دلائل پیش کر چکے ہیں کہ تقلید ضروری ہے حتی کہ انسان ایک انجان راستے پہ چلتا ہے تو وہاں بھی اس کو ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ نہیں ہے کہ اہل بیت علیہم السلام نے ہمیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ہمیں علماء اور ان علماء کے پلے باندھا ہے
اختلافی مسائل کا حل کیسے نکالا جاتا ہے؟
جو با عمل شخصیت ہیں جن کا ذاتی مقاصد نہیں ہے وہ اہل بیت علیہم السلام کا فرمان پڑھ کے ہمیں نتیجہ نکال کے دیتے ہیں کہ یہ آپ نے عمل کرنا ہے آج کے جدید مسائل اور باقی گزشتہ سابقہ مسائل عبادات معاملات یہ تمام چیزیں وہ دیکھتے ہیں نتیجہ نکالتے ہیں روایات کو قران کو سنت کو عقل کو ہر چیز کو دلائل کو سامنے رکھ کے پھر نتیجہ نکال کے ہمیں ایک ٹو دی پوائنٹ بات بتاتے ہیں کہ یہ آپ نے کرنی ہے اسے اجتہاد کہتے ہیں اجتہاد فقط فقہ جعفریہ میں نہیں ہے باقی مسالک میں بھی موجود ہے لیکن اجتہاد فقہ جعفریہ میں سب سے زیادہ مضبوط ہے
کیا شیعہ میں ہر بندہ مفتی بن سکتا ہے
ہمارا ہر بندہ مفتی نہیں بنا ہوا ہوتا ہمارے وہ مفتی ہیں مفتی جو فتوی دیتا ہے چند شخصیات ہیں گنی ہوئی ہمارے پاس مجتہدین علماء کثرت سے ہیں سینکڑوں میں لیکن مفتی جو فتویٰ دیتے ہیں کیونکہ مجتہدین کے بعد ایک مجتہد کے بعد والا مرحلہ ہے کہ وہ مرجع تقلید بنے اور مفتی بنے تو یہ آسان نہیں ہے زندگیاں خرچ کرنی پڑتی ہیں علوم ال محمد میں تب جا کے انسان مرج تقلید بنتا ہے بالفاظ دیگر مفتی بنتا ہے تو جو فتوی دیتے ہیں ان کے کوئی ذاتی مقاصد نہیں ہوتے آج فقط یہی عرض کرنا ہے مومنین سے جو اکثر سوال کرتے ہیں کہ ہمیں تقلید کا طریقہ بتائیے مرجع مجتہد جس کی ہم تقلید کرتے ہیں وہ ہمیں مسائل شریعہ بتاتے ہیں ہم ان کے مسائل پر عمل کرتے ہیں وہ ہم شرائط بتا چکے ہیں مجتہد کی کہ شیعہ ہو حلال زادہ ہو شیعہ اثناء عشری ہو مرد ہو زندہ ہو یہ تمام چیزیں ہم بتا چکے ہے۔
مجتہد کی تحقیق کاطریقہ کیا ہے
تقلید کا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے تحقیق کرنی ہے کہ کون سا مجتہد کون سا مرجع اس وقت سب سے زیادہ عالم ہے علوم ال محمد میں سب سے زیادہ ملکہ پاور پاور سے مراد یعنی اس کی علمی پاور سب سے زیادہ کس کے پاس ہے وہ تحقیق کرے خود نہیں کر سکتا تو عالم یعنی کہ عادل شخصیات کے پاس جائے باعلم شخصیات کے پاس اہل خبرگان کے پاس جو ان کے قریبی حلقہ ہوں ان کے پاس جانا ممکن نہیں ہے تو پھر اپنے قریبی علماء سے مدد لے یعنی کہ آسان ترین طریقہ بھی ہے یہ نہیں ہے کہ ہم بھی مجتہد تک کیسے پہنچیں یا اہل خبرگان تک کیسے پہنچے تو آپ اگر ممکن نہیں ہے اہل خبرگان تک پہنچنا تو پھر آپ دو عادل شخصیات کے قول پر بھی اتفاق کر سکتے ہیں آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کی تحقیق آپ شرعا آپ ہمیں اپنی ذمہ داری سے بتائیں
سب سے بڑا عالم کون سا ہے
کہ آپ کی تحقیق میں کون سا مجتہد عالم ہے عالم یعنی سب سے زیادہ پاور ان کے علم میں تو ہماری جو تحقیق ہے میری اپنی تحقیق ہم مسائل شریعہ بھی آیت اللہ سید علی سستانی دامت ان لوگوں کے نزدیک بتاتے ہیں میری تحقیق کے مطابق یہاں نجف میں آئے ہم نے وقت گزارا تحقیق میں اس کے بعد ہم نے یہی تحقیق اور باقی وہ ہے کیونکہ باقی مراجع عظام کو دیکھا اہل خبرگان کے پاس جتنا جا سکتے تھے کوشش کی اس کے بعد نتیجہ نکلا کہ آیت اللہ سید علی سیستانی اعلم ہیں اس وقت باقی مراجع عظام جو ہیں وہ اس وقت اگر عالم ہیں تو ان سے کم درجے پر ہیں ۔تو ہم ایت اللہ سید علی سستانی دامہ ذلح کی تقلید ریکمنڈ کریں گے انہی کے مسائل شریعہ بتاتے ہیں اور یہ نہیں ہے کہ ہم باقی مراجع عظام کے مقلدین کو ڈسکرج کر رہے ہیں ایسا نہیں ہے ہر انسان اپنی ایک ذمہ داری ہے اس کی وہ اپنی ذمہ داری پر عمل کر رہا ہے جو جس مرجع کو عالم سمجھتا ہے اسی انہی کی تقلید پہ باقی رہے انہی کے مسائل شرعیہ پر عمل کرے اور یہ نہیں ہے کہ ایک مرجع کا حکم جو ہے دوسرے مرجع کے حکم سے بالکل مختلف ہے نماز انہی کی ایک وضو انہی کا ایک روزہ انہی کا ایک یہ بیسکس جو ہے وہ سب ایک جیسی ہیں جو آج کے لیٹسٹ مسائل ہیں جو روایات میں نہیں ہیں یا مثلا کہ مختلف روایات ہیں ایک چیز پر وہ کم بہت کم مسائل ایسے ہیں جن میں اختلاف ہوتا ہے مراجع عظام جو بیسکس ہیں جس سے نماز روزہ خمس یہ تمام چیزیں ان میں اکثر جو بیسکس ہیں وہ تمام کا ایک ہی حکم ہے جو جو جزئیات ہیں یا لیٹسٹ مثال ہیں ان میں ان کا اختلاف ہے ان کا کیونکہ ان کی اپنی تحقیق ہے انہوں نے جو زندگیاں خارج کی ہیں باقی علوم کی مدد سے نتیجہ حاصل کرنے میں تو اس وجہ سے ان کے اندر اختلاف ہوتا ہے اور یہ سوال اور اعتراض جو کیا جاتا ہے کہ مراجع کے فتوے کے درمیان اختلاف کیوں یہ ہم تقلید کیوں ضروری ہے اس ٹاپک میں ہم یہ تمام چیزیں اور اعتراضات اور ان کے جواب دے چکے ہیں
تقلید کا طریقہ کیا ہے
طریقہ تقلید کیا ہے یہی ہے کہ عالم کی تشخیص کریں اور یہ نیت کریں کہ میں انہی کے فتووں پر عمل کروں گا بس یہی آپ کی شرعی ذمہ داری ہے کہ آپ نے یہ تشخیص کر کے کہ میں آیت اللہ سیستانی دامت ان لوگوں کے فتووں پر عمل کروں گا یا جو بھی آپ کی تحقیق میں آنا ہے اس کے بعد آپ نے انہی کے فتاویٰ پر عمل کرتے رہنا ہے انہی کی توضیح المسائل منہاج الصالحین یا علماء سے رابطے میں رہنا ہے اور ان کو کہنا ہے کہ ہم ان کی تقلید کرتے ہیں یعنی فلاں کی اور ان کی آسانی سے کتابیں اویلیبل ہیں پی ڈی ایف میں سافٹ ویئر میں ہر میں تقریبا مرجع کی تو آپ آسانی سے فتاویٰ بھی حاصل کر سکتے ہیں یہ طریقہ ہے تقلید کا تقلید کوئی آپ کے وہ جیسے کہا جاتا ہے کہ گلے میں رسی نہیں ہے طوق نہیں ہے کوئی بہت بھاری چیز نہیں ہے فقط یہ طریقہ ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے کوئی خاص طریقہ ہے نیت کرنے کا وہ کرنی ہے پھر آپ بیعت میں آ جاتے ہیں پھر آپ کے لیے بہت ساری مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں جس طرح ڈرایا جاتا ہے مومنین کوئی ایسا نہیں ہے یعنی ایک وسیلہ ہے مراجع عظام کا کہ آپ ان کے ذریعے اہل بیت تک پہنچتے ہیں اس طرح اللہ تک پہنچنے کے لیے اہل بیت علیہم السلام ہمارے لیے وسیلہ ہیں تو اہل بیت کا فرمان ہے کہ ہماری طرف سے علماء آپ پر حجت ہیں تو ہم علماء کے فرمان کے ذریعے اللہ کی عبادت اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی صحیح طریقے سے کر سکیں گے۔