کیا عورت 40 دن تک نماز اور روزہ نہیں رکھ سکتی؟ حقیقت اور غلط فہمیاں
بہت سی خواتین میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ بچے کی ولادت کے بعد چالیس دن تک نماز اور روزہ معاف ہوتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ شریعت میں خونِ نفاس کی کم از کم مدت ایک لحظہ اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے۔
نفاس کی مدت اور روزہ رکھنے کا حکم
1️⃣ اگر خون دس دن سے کم ہو
جتنے دن خون آئے، وہ نفاس کے دن شمار ہوں گے۔
ان دنوں میں عورت پر روزہ اور نماز لازم نہیں ہوگا۔
جیسے ہی خون بند ہو، وہ پاک سمجھی جائے گی اور اس پر نماز اور روزہ فرض ہو جائے گا۔
2️⃣ اگر خون دس دن سے زیادہ ہو
عورت کی دو حالتیں ہو سکتی ہیں:
✅ پہلی حالت: اگر حیض کی عادت ہو
جتنے دن حیض کی عادت ہے، اتنے دن نفاس شمار ہوگا۔فرض کریں کسی عورت کا حیض 7 دن کا ہے، تو اس کا نفاس بھی 7 دن ہوگا۔باقی دن استحاضہ شمار ہوں گے اور ان میں نماز و روزہ رکھنا فرض ہوگا۔
✅ دوسری حالت: اگر حیض کی عادت نہ ہو
ایسی عورت کے لیے نفاس زیادہ سے زیادہ 10 دن ہوگا۔اس کے بعد اگر خون جاری رہے تو استحاضہ ہوگا، اور استحاضہ میں نماز اور روزہ فرض ہوتا ہے۔
استحاضہ میں نماز اور روزے کا حکم
استحاضہ کے دنوں میں عورت پر روزہ اور نماز لازم ہوتا ہے۔اگر 20 دن بعد بھی خون جاری رہے اور تین یا زیادہ دن خون
مسلسل آئے تو وہ کبھی حیض اور کبھی استحاضہ شمار ہوگا۔
نتیجہ
❌ یہ تصور کہ عورت 40 دن تک نماز اور روزہ نہیں رکھ سکتی، سراسر غلط ہے۔
✅ نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت 10 دن ہے، اس کے بعد خون اگر آئے تو وہ استحاضہ ہوگا اور اس میں نماز و روزہ رکھنا فرض ہوگا۔
لہذا روزہ دار عورت کو حیض اور نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن 40 دن تک نماز اور روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔